اعجاز ہے کسی کا یا گردش زمانہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اعجاز ہے کسی کا یا گردش زمانہ  (1935) 
by محمد اقبال

اعجاز ہے کسی کا یا گردش زمانہ
ٹوٹا ہے ایشیا میں سحر فرنگیانہ

تعمیرِ آشیاں سے میں نے یہ راز پایا
اہلِ نوا کے حق میں بجلی ہے آشیانہ

یہ بندگی خدائی، وہ بندگی گدائی
یہ بندۂ خدا بن یا بندۂ زمانہ

غافل نہ ہو خودی سے کر اپنی پاسبانی
شاید کسی حرم کا تو بھی ہے آستانہ

اے لآ اِلہٰ کے وارث باقی نہیں ہے تجھ میں
گفتارِ دلبرانہ، کردارِ قاہرانہ

تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے
کھویا گیا ہے تیرا جذب قلندرانہ

رازِ حرم سے شاید اقبال با خبر ہے
ہیں اس کی گفتگو کے اندر محرمانہ

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse