مسولینی (کیا زمانے سے نرالا ہے مسولینی کا جُرم)

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مسولینی  (1936) 
by محمد اقبال

(اپنے مشرقی اور مغربی حریفوں سے)


کیا زمانے سے نرالا ہے مسولینی کا جُرم!
بے محل بِگڑا ہے معصومانِ یورپ کا مزاج
مَیں پھٹکتا ہُوں تو چھَلنی کو بُرا لگتا ہے کیوں
ہیں سبھی تہذیب کے اوزار! تُو چھَلنی، مَیں چھاج
میرے سودائے مُلوکیّت کو ٹھُکراتے ہو تم
تم نے کیا توڑے نہیں کمزور قوموں کے زُجاج؟
یہ عجائب شعبدے کس کی مُلوکیّت کے ہیں
راجدھانی ہے، مگر باقی نہ راجا ہے نہ راج
آلِ سِیزر چوبِ نَے کی آبیاری میں رہے
اور تم دُنیا کے بنجر بھی نہ چھوڑو بے خراج!
تم نے لُوٹے بے نوا صحرا نشینوں کے خیام
تم نے لُوٹی کِشتِ دہقاں، تم نے لُوٹے تخت و تاج
پردۂ تہذیب میں غارت گری، آدم کُشی
کل رَوا رکھّی تھی تم نے، مَیں رَوا رکھتا ہوں آج!

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse