سیّدکی لوحِ تُربت

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سیّدکی لوحِ تُربت  (1924) 
by محمد اقبال

اے کہ تیرا مرغِ جاں تارِ نفَس میں ہے اسیر
اے کہ تیری رُوح کا طائر قفَس میں ہے اسیر
اس چمن کے نغمہ پیراؤں کی آزادی تو دیکھ
شہر جو اُجڑا ہوا تھا اُس کی آبادی تو دیکھ
فکر رہتی تھی مجھے جس کی وہ محفل ہے یہی
صبر و استقلال کی کھیتی کا حاصل ہے یہی
سنگِ تربت ہے مرا گرویدۂ تقریر دیکھ
چشمِ باطن سے ذرا اس لوح کی تحریر دیکھ

مدّعا تیرا اگر دنیا میں ہے تعلیمِ دیں
ترکِ دنیا قوم کو اپنی نہ سِکھلانا کہیں
وا نہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنی زباں
چھُپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامۂ محشر یہاں
وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے
دیکھ! کوئی دل نہ دُکھ جائے تری تقریر سے
محفلِ نَو میں پرانی داستانوں کو نہ چھیڑ
رنگ پر جو اَب نہ آئیں اُن فسانوں کو نہ چھیڑ

تُو اگر کوئی مدبّر ہے تو سُن میری صدا
ہے دلیری دستِ اربابِ سیاست کا عصا
عرضِ مطلب سے جھجک جانا نہیں زیبا تجھے
نیک ہے نیّت اگر تیری تو کیا پروا تجھے
بندۂ مومن کا دل بیم و ریا سے پاک ہے
قوّت فرماں روا کے سامنے بے باک ہے

ہو اگر ہاتھوں میں تیرے خامۂ معجز رقم
شیشۂ دل ہو اگر تیرا مثالِ جامِ جم
پاک رکھ اپنی زباں، تلمیذِ رحمانی ہے تُو
ہو نہ جائے دیکھنا تیری صدا بے آبرو!
سونے والوں کو جگا دے شعر کے اعجاز سے
خرمنِ باطل جلا دے شُعلۂ آواز سے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse