پردہ چہرے سے اُٹھا، انجمن آرائی کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پردہ چہرے سے اُٹھا، انجمن آرائی کر  (1924) 
by محمد اقبال

پردہ چہرے سے اُٹھا، انجمن آرائی کر
چشمِ مہر و مہ و انجم کو تماشائی کر

تُو جو بجلی ہے تو یہ چشمک پنہاں کب تک
بے حجابانہ مرے دل سے شناسائی کر

نفَسِ گرم کی تاثیر ہے اعجازِ حیات
تیرے سینے میں اگر ہے تو مسیحائی کر

کب تلک طُور پہ دریُوزہ گری مثلِ کلیم
اپنی ہستی سے عیاں شعلۂ سینائی کر

ہو تری خاک کے ہر ذرّے سے تعمیرِ حرم
دل کو بیگانۂ اندازِ کلیسائی کر

اس گُلستاں میں نہیں حد سے گزرنا اچھّا
ناز بھی کر تو بہ اندازۂ رعنائی کر

پہلے خوددار تو مانندِ سکندر ہو لے
پھر جہاں میں ہَوسِ شوکتِ دارائی کر

مِل ہی جائے گی کبھی منزلِ لیلیٰ اقبالؔ!
کوئی دن اور ابھی بادیہ پیمائی کر

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse