وطنیّت

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وطنیّت  (1924) 
by محمد اقبال

(یعنی وطن بحیثیّت ایک سیاسی تصوّر کے)


اس دور میں مے اور ہے، جام اور ہے جم اور
ساقی نے بِنا کی روِشِ لُطف و ستم اور
مسلم نے بھی تعمیر کِیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے، وہ مذہب کا کفن ہے

یہ بُت کہ تراشیدۂ تہذیبِ نوی ہے
غارت گرِ کاشانۂ دینِ نبَوی ہے
بازو ترا توحید کی قوّت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے، تُو مصطفوی ہے
نظّارۂ دیرینہ زمانے کو دِکھا دے
اے مصطفَوی خاک میں اس بُت کو ملا دے!

ہو قیدِ مقامی تو نتیجہ ہے تباہی
رہ بحر میں آزادِ وطن صُورتِ ماہی
ہے ترکِ وطن سُنّتِ محبوبؐ الٰہی
دے تُو بھی نبوّت کی صداقت پہ گواہی
گُفتارِ سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشادِ نبوّت میں وطن اور ہی کچھ ہے

اقوامِ جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے
تسخیر ہے مقصودِ تجارت تو اسی سے
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
اقوام میں مخلوقِ خدا بٹتی ہے اس سے
قومیّتِ اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.