شعور و ہوش و خرد کا معاملہ ہے عجیب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شعور و ہوش و خرد کا معاملہ ہے عجیب  (1935) 
by محمد اقبال

شعور و ہوش و خرد کا معاملہ ہے عجیب
مقامِ شوق میں ہیں سب دل و نظر کے رقیب

میں جانتا ہوں جماعت کا حشر کیا ہو گا
مسائلِ نظَری میں اُلجھ گیا ہے خطیب

اگرچہ میرے نشیمن کا کر رہا ہے طواف
مری نوا میں نہیں طائرِ چمن کا نصیب

سُنا ہے میں نے سخن رس ہے تُرکِ عثمانی
سُنائے کون اسے اقبالؔ کا یہ شعرِ غریب

سمجھ رہے ہیں وہ یورپ کو ہم جوار اپنا
ستارے جن کے نشیمن سے ہیں زیادہ قریب!

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse