دوزخی کی مُناجات

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دوزخی کی مُناجات  (1938) 
by محمد اقبال

اس دیرِ کُہن میں ہیں غرض مند پُجاری
رنجیدہ بُتوں سے ہوں تو کرتے ہیں خدا یاد
پوجا بھی ہے بے سُود، نمازیں بھی ہیں بے سُود
قسمت ہے غریبوں کی وہی نالہ و فریاد
ہیں گرچہ بلندی میں عمارات فلک بوس
ہر شہر حقیقت میں ہے ویرانۂ آباد
تیشے کی کوئی گردشِ تقدیر تو دیکھے
سیراب ہے پرویز، جِگر تَشنہ ہے فرہاد
یہ عِلم، یہ حکمت، یہ سیاست، یہ تجارت
جو کچھ ہے، وہ ہے فکرِ مُلوکانہ کی ایجاد
اللہ! ترا شکر کہ یہ خطّۂ پُر سوز
سوداگرِ یورپ کی غلامی سے ہے آزاد!

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse