بزمِ انجم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بزمِ انجم  (1924) 
by محمد اقبال

سُورج نے جاتے جاتے شامِ سیہ قبا کو
طشتِ اُفُق سے لے کر لالے کے پھُول مارے
پہنا دیا شفَق نے سونے کا سارا زیور
قُدرت نے اپنے گہنے چاندی کے سب اُتارے
محمل میں خامشی کے لیلائے ظُلمت آئی
چمکے عروسِ شب کے موتی وہ پیارے پیارے
وہ دُور رہنے والے ہنگامۂ جہاں سے
کہتا ہے جن کو انساں اپنی زباں میں ’تارے‘
محوِ فلک فروزی تھی انجمن فلک کی
عرشِ بریں سے آئی آواز اک ملَک کی

اے شب کے پاسانو، اے آسماں کے تارو!
تابندہ قوم ساری گردُوں نشیں تمھاری
چھیڑو سرود ایسا، جاگ اٹھّیں سونے والے
رہبر ہے قافلوں کی تابِ جبیں تمھاری
آئینے قسمتوں کے تم کو یہ جانتے ہیں
شاید سُنیں صدائیں اہلِ زمیں تمھاری
رُخصت ہوئی خموشی تاروں بھری فضا سے
وسعت تھی آسماں کی معمور اس نوا سے

“حُسنِ ازل ہے پیدا تاروں کی دلبری میں
جس طرح عکسِ گُل ہو شبنم کی آرسی میں
آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کُہن پہ اَڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
یہ کاروانِ ہستی ہے تیز گام ایسا
قومیں کُچل گئی ہیں جس کی رواروی میں
آنکھوں سے ہیں ہماری غائب ہزاروں انجم
داخل ہیں وہ بھی لیکن اپنی برادری میں
اک عمر میں نہ سمجھے اس کو زمین والے
جو بات پا گئے ہم تھوڑی سی زندگی میں
ہیں جذبِ باہمی سے قائم نظام سارے
پوشیدہ ہے یہ نُکتہ تاروں کی زندگی میں”


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.