Jump to content

بلادِ اسلامیہ

From Wikisource
بلادِ اسلامیہ (1924)
by محمد اقبال
295958بلادِ اسلامیہ1924محمد اقبال

(۱۹۰۸ء سے )


سرزمیں دلّی کی مسجودِ دلِ غم دیدہ ہے
ذرّے ذرّے میں لہُو اسلاف کا خوابیدہ ہے
پاک اس اُجڑے گُلستاں کی نہ ہو کیونکر زمیں
خانقاہِ عظمتِ اسلام ہے یہ سرزمیں
سوتے ہیں اس خاک میں خیرالامم کے تاجدار
نظمِ عالم کا رہا جن کی حکومت پر مدار
دل کو تڑپاتی ہے اب تک گرمیِ محفل کی یاد
جل چُکا حاصل مگر محفوظ ہے حاصل کی یاد

ہے زیارت گاہِ مسلم گو جہان آباد بھی
اس کرامت کا مگر حق دار ہے بغداد بھی
یہ چمن وہ ہے کہ تھا جس کے لیے سامانِ ناز
لالۂ صحرا جسے کہتے ہیں تہذیبِ حجاز
خاک اس بستی کی ہو کیونکر نہ ہمدوشِ اِرم
جس نے دیکھے جانشینانِ پیمبرؐ کے قدم
جس کے غُنچے تھے چمن ساماں، وہ گلشن ہے یہی
کانپتا تھا جن سے روما، اُن کا مدفن ہے یہی

ہے زمینِ قُرطُبہ بھی دیدۂ مسلم کا نور
ظلمتِ مغرب میں جو روشن تھی مثلِ شمعِ طُور
بُجھ کے بزمِ ملّتِ بیضا پریشاں کر گئی
اور دِیا تہذیبِ حاضر کا فروزاں کر گئی
قبر اُس تہذیب کی یہ سر زمینِ پاک ہے
جس سے تاکِ گلشنِ یورپ کی رگ نم ناک ہے

خطّۂ قُسطنطنیّہ یعنی قیصر کا دیار
مہدیِ اُمّت کی سَطوت کا نشانِ پائدار
صورتِ خاکِ حرم یہ سر زمیں بھی پاک ہے
آستانِ مسند آرائے شہِ لولاکؐ ہے
نکہتِ گُل کی طرح پاکیزہ ہے اس کی ہوا
تُربتِ ایّوب انصاریؓ سے آتی ہے صدا
اے مسلماں! ملّتِ اسلام کا دل ہے یہ شہر
سینکڑوں صدیوں کی کُشت و خُوں کا حاصل ہے یہ شہر

وہ زمیں ہے تُو مگر اے خواب گاہِ مُصطفیٰؐ
دید ہے کعبے کو تیری حجِّ اکبر سے سوا
خاتمِ ہستی میں تُو تاباں ہے مانندِ نگیں
اپنی عظمت کی ولادت گاہ تھی تیری زمیں
تُجھ میں راحت اُس شہنشاہِ معظّمؐ کو مِلی
جس کے دامن میں اماں اقوامِ عالم کو مِلی
نام لیوا جس کے شاہنشاہ عالم کے ہوئے
جانشیں قیصر کے، وارث مسندِ جم کے ہوئے
ہے اگر قومیّتِ اسلام پابندِ مقام
ہند ہی بنیاد ہے اس کی، نہ فارس ہے، نہ شام
آہ یثرِب! دیس ہے مسلم کا تُو، املاء ہے تُو
نُقطۂ جاذب تاثّر کی شعاعوں کا ہے تُو
جب تلک باقی ہے تُو دنیا میں، باقی ہم بھی ہیں
صُبح ہے تو اِس چمن میں گوہرِ شبنم بھی ہیں


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.