وہ حرفِ راز کہ مجھ کو سِکھا گیا ہے جُنوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ حرفِ راز کہ مجھ کو سِکھا گیا ہے جُنوں  (1935) 
by محمد اقبال

وہ حرفِ راز کہ مجھ کو سِکھا گیا ہے جُنوں
خدا مجھے نفَسِ جبرئیل دے تو کہوں

ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخیِ افلاک میں ہے خوار و زبُوں

حیات کیا ہے، خیال و نظر کی مجذوبی
خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گوناگُوں

عجب مزا ہے، مجھے لذّتِ خودی دے کر
وہ چاہتے ہیں کہ مَیں اپنے آپ میں نہ رہوں

ضمیرِ پاک و نگاہِ بلند و مستیِ شوق
نہ مال و دولتِ قاروں، نہ فکرِ افلاطوں

سبق مِلا ہے یہ معراجِ مصطفیٰؐ سے مجھے
کہ عالمِ بشَرِیّت کی زد میں ہے گردُوں

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے ’کُنْ فَیَکُوںْ‘

علاج آتشِ رومیؔ کے سوز میں ہے ترا
تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں

اُسی کے فیض سے میری نگاہ ہے روشن
اُسی کے فیض سے میرے سبُو میں ہے جیحوں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse