نیا شوالا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نیا شِوالا  (1924) 
by محمد اقبال

سچ کہہ دوں اے برہمن! گر تو بُرا نہ مانے
تیرے صنم کدوں کے بُت ہو گئے پُرانے
اپنوں سے بَیر رکھنا تو نے بُتوں سے سیکھا
جنگ و جدَل سِکھایا واعظ کو بھی خدا نے
تنگ آ کے میں نے آخر دَیر و حرم کو چھوڑا
واعظ کا وعظ چھوڑا، چھوڑے ترے فسانے
پتھّر کی مُورتوں میں سمجھا ہے تُو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرّہ دیوتا ہے

آ، غیریت کے پردے اک بار پھر اُٹھا دیں
بِچھڑوں کو پھر مِلا دیں نقشِ دُوئی مٹا دیں
سُونی پڑی ہوئی ہے مدّت سے دل کی بستی
آ، اک نیا شِوالا اس دیس میں بنا دیں
دنیا کے تیرتھوں سے اونچا ہو اپنا تیرتھ
دامانِ آسماں سے اس کا کلَس مِلا دیں
ہر صبح اُٹھ کے گائیں منتر وہ مٹیھے مٹیھے
سارے پُجاریوں کو مے پِیت کی پلا دیں
شکتی بھی، شانتی بھی بھگتوں کے گیت میں ہے
دھرتی کے باسیوں کی مُکتی پریت میں ہے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse