شفاخانۂ حجاز
Appearance
اک پیشوائے قوم نے اقبالؔ سے کہا
کھُلنے کو جدّہ میں ہے شفاخانۂ حجاز
ہوتا ہے تیری خاک کا ہر ذرّہ بے قرار
سُنتا ہے تُو کسی سے جو افسانۂ حجاز
دستِ جُنوں کو اپنے بڑھا جیب کی طرف
مشہور تُو جہاں میں ہے دیوانۂ حجاز
دارالشّفا حوالیِ بطحا میں چاہیے
نبضِ مریض پنجۂ عیسیٰ میں چاہیے
مَیں نے کہا کہ موت کے پردے میں ہے حیات
پوشیدہ جس طرح ہو حقیقت مجاز میں
تلخابۂ اجل میں جو عاشق کو مِل گیا
پایا نہ خِضر نے مئے عمرِ دراز میں
اوروں کو دیں حضور! یہ پیغامِ زندگی
مَیں موت ڈھُونڈتا ہوں زمینِ حجاز میں
آئے ہیں آپ لے کے شفا کا پیام کیا
رکھتے ہیں اہلِ درد مسیحا سے کام کیا!
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |