عقل و دِل (عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا)

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
عقل و دِل  (1924) 
by محمد اقبال

عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا
بھُولے بھٹکے کی رہنما ہُوں میں

ہوں زمیں پر، گزر فلک پہ مرا
دیکھ تو کس قدر رسا ہوں میں

کام دنیا میں رہبری ہے مرا
مثل خضرِ خجستہ پا ہوں میں

ہوں مفسِّر کتابِ ہستی کی
مظہرِ شانِ کبریا ہوں میں

بوند اک خون کی ہے تُو لیکن
غیرتِ لعلِ بے بہا ہوں میں

دل نے سُن کر کہا یہ سب سچ ہے
پر مجھے بھی تو دیکھ، کیا ہوں میں

رازِ ہستی کو تُو سمجھتی ہے
اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں!

ہے تجھے واسطہ مظاہر سے
اور باطن سے آشنا ہوں میں

عِلم تجھ سے تو معرفت مجھ سے
تُو خدا جُو، خدا نما ہوں میں

علم کی انتہا ہے بے تابی
اس مرض کی مگر دوا ہوں میں

شمع تُو محفلِ صداقت کی
حُسن کی بزم کا دِیا ہوں میں

تُو زمان و مکاں سے رشتہ بپا
طائرِ سِدرہ آشنا ہوں میں

کس بلندی پہ ہے مقام مرا
عرش ربِّ جلیل کا ہوں میں!


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.