کیا کہوں اپنے چمن سے مَیں جُدا کیونکر ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا کہوں اپنے چمن سے مَیں جُدا کیونکر ہوا  (1924) 
by محمد اقبال

کیا کہوں اپنے چمن سے مَیں جُدا کیونکر ہوا
اور اسیرِ حلقۂ دامِ ہَوا کیونکر ہوا

جائے حیرت ہے بُرا سارے زمانے کا ہوں میں
مجھ کو یہ خلعت شرافت کا عطا کیونکر ہوا

کچھ دکھانے دیکھنے کا تھا تقاضا طُور پر
کیا خبر ہے تجھ کو اے دل فیصلا کیونکر ہوا

ہے طلب بے مدّعا ہونے کی بھی اک مدّعا
مرغِ دل دامِ تمنّا سے رِہا کیونکر ہوا

دیکھنے والے یہاں بھی دیکھ لیتے ہیں تجھے
پھر یہ وعدہ حشر کا صبر آزما کیونکر ہوا

حُسنِ کامل ہی نہ ہو اس بے حجابی کا سبب
وہ جو تھا پردوں میں پنہاں، خود نما کیونکر ہوا

موت کا نسخہ ابھی باقی ہے اے دردِ فراق!
چارہ گر دیوانہ ہے، مَیں لا دوا کیونکر ہوا

تُو نے دیکھا ہے کبھی اے دیدۂ عبرت کہ گُل
ہو کے پیدا خاک سے رنگیں قبا کیونکر ہوا

پُرسشِ اعمال سے مقصد تھا رُسوائی مری
ورنہ ظاہر تھا سبھی کچھ، کیا ہوا، کیونکر ہوا

میرے مِٹنے کا تماشا دیکھنے کی چیز تھی
کیا بتاؤں اُن کا میرا سامنا کیونکر ہوا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse