ایک پرندہ اور جگنو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ایک پرندہ اور جگنو  (1924) 
by محمد اقبال

سرِ شام ایک مرغِ نغمہ پیرا
کسی ٹہنی پہ بیٹھا گا رہا تھا

چمکتی چیز اک دیکھی زمیں پر
اُڑا طائر اُسے جُگنو سمجھ کر

کہا جُگنو نے او مرغِ نواریز!
نہ کر بے کس پہ منقارِ ہوس تیز

تجھے جس نے چہک، گُل کو مہک دی
اُسی اللہ نے مجھ کو چمک دی

لباسِ نور میں مستور ہوں میں
پتنگوں کے جہاں کا طُور ہوں میں

چہک تیری بہشتِ گوش اگر ہے
چمک میری بھی فردوسِ نظر ہے

پروں کو میرے قُدرت نے ضیا دی
تجھے اُس نے صدائے دل رُبا دی

تری منقار کو گانا سکھایا
مجھے گُلزار کی مشعل بنایا

چمک بخشی مجھے، آواز تجھ کو
دیا ہے سوز مجھ کو، ساز تجھ کو

مخالف ساز کا ہوتا نہیں سوز
جہاں میں ساز کا ہے ہم نشیں سوز

قیامِ بزمِ ہستی ہے انھی سے
ظہورِ اوج و پستی ہے انھی سے

ہم آہنگی سے ہے محفل جہاں کی
اسی سے ہے بہار اس بوستاں کی

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse