سختیاں کرتا ہوں دل پر، غیر سے غافل ہوں میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سختیاں کرتا ہوں دل پر، غیر سے غافل ہوں میں  (1924) 
by محمد اقبال

سختیاں کرتا ہوں دل پر، غیر سے غافل ہوں میں
ہائے کیا اچھّی کہی ظالم ہوں میں، جاہل ہوں میں

میں جبھی تک تھا کہ تیری جلوہ پیرائی نہ تھی
جو نمودِ حق سے مٹ جاتا ہے وہ باطل ہوں میں

علم کے دریا سے نِکلے غوطہ زن گوہر بدست
وائے محرومی! خزف چینِ لبِ ساحل ہوں میں

ہے مری ذلّت ہی کچھ میری شرافت کی دلیل
جس کی غفلت کو مَلَک روتے ہیں وہ غافل ہوں میں

بزمِ ہستی! اپنی آرائش پہ تُو نازاں نہ ہو
تُو تو اک تصویر ہے محفل کی اور محفل ہوں میں

ڈھُونڈتا پھرتا ہوں اے اقبالؔ اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر، آپ ہی منزل ہوں میں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse