جُگنو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جُگنو  (1924) 
by محمد اقبال

جُگنو کی روشنی ہے کاشانۂ چمن میں
یا شمع جل رہی ہے پھُولوں کی انجمن میں
آیا ہے آسماں سے اُڑ کر کوئی ستارہ
یا جان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن میں
یا شب کی سلطنت میں دن کا سفیر آیا
غربت میں آ کے چمکا، گمنام تھا وطن میں
تکمہ کوئی گرا ہے مہتاب کی قبا کا
ذرّہ ہے یا نمایاں سورج کے پیرہن میں
حُسنِ قدیم کی یہ پوشیدہ اک جھلک تھی
لے آئی جس کو قُدرت خَلوت سے انجمن میں
چھوٹے سے چاند میں ہے ظلمت بھی روشنی بھی
نکلا کبھی گہن سے، آیا کبھی گہن میں
پروانہ اک پتنگا، جُگنو بھی اک پتنگا
وہ روشنی کا طالب، یہ روشنی سراپا

ہر چیز کو جہاں میں قدرت نے دلبری دی
پروانے کو تپش دی، جُگنو کو روشنی دی
رنگیں نوا بنایا مُرغانِ بے زباں کو
گُل کو زبان دے کر تعلیمِ خامشی دی
نظّارۂ شفَق کی خوبی زوال میں تھی
چمکا کے اس پری کو تھوڑی سی زندگی دی
رنگیں کِیا سحَر کو، بانکی دُلھن کی صورت
پہنا کے لال جوڑا شبنم کی آرسی دی
سایہ دیا شجَر کو، پرواز دی ہوا کو
پانی کو دی روانی، موجوں کو بے کلی دی
یہ امتیاز لیکن اک بات ہے ہماری
جُگنو کا دن وہی ہے جو رات ہے ہماری

حُسنِ ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے
انساں میں وہ سخن ہے، غنچے میں وہ چٹک ہے
یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا
واں چاندنی ہے جو کچھ، یاں درد کی کسک ہے
اندازِ گفتگو نے دھوکے دیے ہیں ورنہ
نغمہ ہے بُوئے بُلبل، بُو پھول کی چہک ہے
کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی
جُگنو میں جو چمک ہے، وہ پھول میں مہک ہے
یہ اختلاف پھر کیوں ہنگاموں کا محل ہو
ہر شے میں جبکہ پنہاں خاموشیِ ازل ہو

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse