شُعاعِ آفتاب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شُعاعِ آفتاب  (1924) 
by محمد اقبال

صبح جب میری نگہ سودائیِ نظّارہ تھی
آسماں پر اک شُعاعِ آفتاب آوارہ تھی
مَیں نے پُوچھا اُس کرن سے “اے سراپا اضطراب!
تیری جانِ ناشکیبا میں ہے کیسا اضطراب
تُو کوئی چھوٹی سی بجلی ہے کہ جس کو آسماں
کر رہا ہے خرمنِ اقوام کی خاطر جواں
یہ تڑپ ہے یا ازل سے تیری خُو ہے، کیا ہے یہ
رقص ہے، آوارگی ہے، جُستجو ہے، کیا ہے یہ؟”

“خُفتہ ہنگامے ہیں میری ہستیِ خاموش میں
پرورش پائی ہے مَیں نے صُبح کی آغوش میں
مُضطرب ہر دَم مری تقدیر رکھتی ہے مجھے
جُستجو میں لذّتِ تنویر رکھتی ہے مجھے
برقِ آتش خُو نہیں، فطرت میں گو ناری ہوں مَیں
مہرِ عالم تاب کا پیغامِ بیداری ہوں مَیں
سُرمہ بن کر چشمِ انساں میں سما جاؤں گی مَیں
رات نے جو کچھ چھُپا رکھّا تھا، دِکھلاؤں گی مَیں
تیرے مستوں میں کوئی جویائے ہشیاری بھی ہے
سونے والوں میں کسی کو ذوقِ بیداری بھی ہے؟”


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.