ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی  (1924) 
by محمد اقبال

ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی

منصُور کو ہُوا لبِ گویا پیامِ موت
اب کیا کسی کے عشق کا دعویٰ کرے کوئی

ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر
ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی

میں انتہائے عشق ہوں، تُو انتہائے حُسن
دیکھے مجھے کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی

عذر آفرینِ جرمِ محبّت ہے حُسنِ دوست
محشر میں عذرِ تازہ نہ پیدا کرے کوئی

چھُپتی نہیں ہے یہ نگہِ شوق ہم نشیں!
پھر اور کس طرح اُنھیں دیکھا کرے کوئی

اَڑ بیٹھے کیا سمجھ کے بھلا طُور پر کلیم
طاقت ہو دید کی تو تقاضا کرے کوئی

نظّارے کو یہ جُنبشِ مژگاں بھی بار ہے
نرگس کی آنکھ سے تجھے دیکھا کرے کوئی

کھُل جائیں، کیا مزے ہیں تمنّائے شوق میں
دو چار دن جو میری تمنا کرے کوئی


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.