پُھول

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پھُول  (1924) 
by محمد اقبال

تجھے کیوں فکر ہے اے گُل دلِ صد چاکِ بُلبل کی
تُو اپنے پیرہن کے چاک تو پہلے رفو کر لے

تمنّا آبرو کی ہو اگر گلزارِ ہستی میں
تو کانٹوں میں اُلجھ کر زندگی کرنے کی خو کر لے

صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے، پا بہ گِل بھی ہے
اِنھی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تُو کر لے

تنک بخشی کو اِستغنا سے پیغامِ خجالت دے
نہ رہ منّت کشِ شبنم، نِگُوں جام و سبو کر لے

نہیں یہ شانِ خودداری، چمن سے توڑ کر تجھ کو
کوئی دستار میں رکھ لے، کوئی زیبِ گلو کر لے

چمن میں غنچۂ گُل سے یہ کہہ کر اُڑ گئی شبنم
مذاقِ جَورِ گُلچیں ہو تو پیدا رنگ و بو کر لے

اگر منظور ہو تجھ کو خزاں ناآشنا رہنا
جہانِ رنگ و بو سے، پہلے قطعِ آرزو کر لے

اسی میں دیکھ، مُضمر ہے کمالِ زندگی تیرا
جو تجھ کو زینتِ دامن کوئی آئینہ رُو کر لے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse