یہ پِیرانِ کلیسا و حرم، اے وائے مجبوری

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ پِیرانِ کلیسا و حرم، اے وائے مجبوری  (1935) 
by محمد اقبال

یہ پِیرانِ کلیسا و حرم، اے وائے مجبوری!
صِلہ ان کی کدوی کاوش کا ہے سینوں کی بے نوری

یقیں پیدا کر اے ناداں! یقیں سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی، کہ جس کے سامنے جھُکتی ہے فغفوری

کبھی حیرت، کبھی مستی، کبھی آہِ سحَرگاہی
بدلتا ہے ہزاروں رنگ میرا دردِ مہجوری

حدِ ادراک سے باہر ہیں باتیں عشق و مستی کی
سمجھ میں اس قدر آیا کہ دل کی موت ہے، دُوری

وہ اپنے حُسن کی مستی سے ہیں مجبورِ پیدائی
مری آنکھوں کی بینائی میں ہیں اسبابِ مستوری

کوئی تقدیر کی منطق سمجھ سکتا نہیں ورنہ
نہ تھے ترکانِ عثمانی سے کم ترکانِ تیموری

فقیرانِ حرم کے ہاتھ اقبالؔ آگیا کیونکر
میّسر میر و سُلطاں کو نہیں شاہینِ کافوری

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse