پیامِ صبح

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پیامِ صبح  (1924) 
by محمد اقبال

اُجالا جب ہُوا رخصت جبینِ شب کی افشاں کا
نسیمِ زندگی پیغام لائی صبحِ خنداں کا

جگایا بُلبلِ رنگیں نوا کو آشیانے میں
کنارے کھیت کے شانہ ہِلایا اُس نے دہقاں کا

طلسمِ ظلمتِ شب سُورۂ والنُّور سے توڑا
اندھیرے میں اُڑایا تاجِ زر شمعِ شبستاں کا

پڑھا خوابیدگانِ دَیر پر افسونِ بیداری
برہمن کو دیا پیغام خورشیدِ دُرَخشاں کا

ہُوئی بامِ حرم پر آ کے یوں گویا مؤذّن سے
نہیں کھٹکا ترے دل میں نمودِ مہرِ تاباں کا؟

پُکاری اس طرح دیوارِ گلشن پر کھڑے ہو کر
چٹک او غنچہ گُل! تُو مؤذّن ہے گُلستاں کا

دیا یہ حکم صحرا میں چلو اے قافلے والو!
چمکنے کو ہے جُگنو بن کے ہر ذرّہ بیاباں کا

سوئے گورِ غریباں جب گئی زندوں کی بستی سے
تو یوں بولی نظارا دیکھ کر شہرِ خموشاں کا

ابھی آرام سے لیٹے رہو، مَیں پھر بھی آؤں گی
سُلادوں گی جہاں کو، خواب سے تم کو جگاؤں گی

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse