نہ تُو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ تُو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے  (1935) 
by محمد اقبال

نہ تُو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے، تُو نہیں جہاں کے لیے

یہ عقل و دِل ہیں شرر شُعلۂ محبّت کے
وہ خار و خَس کے لیے ہے، یہ نیستاں کے لیے

مقامِ پروَرشِ آہ و نالہ ہے یہ چمن
نہ سیرِ گُل کے لیے ہے نہ آشیاں کے لیے

رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک
ترا سفینہ کہ ہے بحرِ بے کراں کے لیے!

نشانِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مردِ راہ‌داں کے لیے

نِگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے

ذرا سی بات تھی، اندیشۂ عجم نے اسے
بڑھا دیا ہے فقط زیبِ داستاں کے لیے

مِرے گُلو میں ہے اک نغمہ جبرئیل آشوب
سنبھال کر جسے رکھّا ہے لامکاں کے لیے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse