چمک تیری عیاں بجلی میں، آتش میں، شرارے میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چمک تیری عیاں بجلی میں، آتش میں، شرارے میں  (1924) 
by محمد اقبال

چمک تیری عیاں بجلی میں، آتش میں، شرارے میں
جھلک تیری ہویدا چاند میں، سُورج میں، تارے میں

بلندی آسمانوں میں، زمینوں میں تری پستی
روانی بحر میں، اُفتادگی تیری کنارے میں

شریعت کیوں گریباں گیر ہو ذوقِ تکلّم کی
چھُپا جاتا ہوں اپنے دل کا مطلب استعارے میں

جو ہے بیدار انساں میں وہ گہری نیند سوتا ہے
شجر میں، پھول میں، حیواں میں، پتھّر میں، ستارے میں

مجھے پھُونکا ہے سوزِ قطرۂ اشکِ محبّت نے
غضب کی آگ تھی پانی کے چھوٹے سے شرارے میں

نہیں جنسِ ثوابِ آخرت کی آرزو مجھ کو
وہ سوداگر ہُوں، مَیں نے نفع دیکھا ہے خسارے میں

سکوں ناآشنا رہنا اسے سامانِ ہستی ہے
تڑپ کس دل کی یا رب چھُپ کے آ بیٹھی ہے پارے میں

صدائے لن ترانی سُن کے اے اقبالؔ میں چُپ ہوں
تقاضوں کی کہاں طاقت ہے مجھ فُرقت کے مارے میں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse