Author:مصطفٰی زیدی
Appearance
مصطفٰی زیدی (1930 - 1970) |
اردو شاعر |
تصانیف
[edit]غزل
[edit]- کسی اور غم میں اتنی خلش نہاں نہیں ہے
- چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ
- ہر اک نے کہا کیوں تجھے آرام نہ آیا
- آندھی چلی تو نقش کف پا نہیں ملا
- تری تلاش میں ہر رہنما سے باتیں کیں
- وہ عہد عہد ہی کیا ہے جسے نبھاؤ بھی
- ہر طرف انبساط ہے اے دل
- درد دل بھی غم دوراں کے برابر سے اٹھا
- نگر نگر میلے کو گئے کون سنے گا تیری پکار
- بجھ گئی شمع حرم باب کلیسا نہ کھلا
- تیرے چہرے کی طرح اور مرے سینے کی طرح
- یوں تو وہ ہر کسی سے ملتی ہے
- سینے میں خزاں آنکھوں میں برسات رہی ہے
- روکتا ہے غم اظہار سے پندار مجھے
- کیا کیا نظر کو شوق ہوس دیکھنے میں تھا
- کسی تو کام زمانے کے سوگوار آئے
- فن کار خود نہ تھی مرے فن کی شریک تھی
- اب جی حدود سود و زیاں سے گزر گیا
- کبھی جھڑکی سے کبھی پیار سے سمجھاتے رہے
- زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے
- غم دوراں نے بھی سیکھے غم جاناں کے چلن
- کف مومن سے نہ دروازۂ دوراں سے ملا
- جب ہوا شب کو بدلتی ہوئی پہلو آئی
- بیٹھا ہوں سیہ بخت و مکدر اسی گھر میں
- بزرگو، ناصحو، فرماں رواؤ
- گریہ تو اکثر رہا پیہم رہا
- جس دن سے اپنا طرز فقیرانہ چھٹ گیا
- ہوئی ایجاد نئی طرز خوشامد کہ نہیں
- کوئی رفیق بہم ہی نہ ہو تو کیا کیجے
- اس قدر اب غم دوراں کی فراوانی ہے
- سحر جیتے گی یا شام غریباں دیکھتے رہنا
- لوگوں کی ملامت بھی ہے خود درد سری بھی
- قدم قدم پہ تمنائے التفات تو دیکھ
نظم
[edit]- آخری بار ملو
- ایک علامت
- فرہاد
- ایک شام
- رات سنسان ہے
- پہلا پتھر
- کہانی
- ہار جیت
- وفا کیسی؟
- دوراہا
- یاد
- جدائی
- دور کی آواز
- اجالا
- آدمی
- تجرید
- فساد ذات
- تنہا
- ہم لوگ
- دوری
- کراہتے ہوئے دل
- تری ہنسی
- مرے زخمی ہونٹ
- مسافر
- سفر آخر شب
- وصال
- آسماں زرد تھا
- ریستوران میں
- رہ و رسم آشنائی
- آواز کے سائے
- بزدل
- انتہا
- گناہ گار
- نیا آذر
- سیاہ لہو
- چارہ گرو
- روح کی موت
- مری پتھر آنکھیں
- تعمیر
- ماہ و سال
قطعہ
[edit]- مدتوں کور نگاہی دل کی
- کاش ہم لوگ لڑ گئے ہوتے
- اس کے چہرے کا عکس پڑتا ہے
- مجھ کو چپ چاپ اس طرح مت دیکھ
- سن کے لوگوں کے زہر سے فقرے
- وقت کے ساتھ لوگ کہتے تھے
- یوں تو اکثر خیال آتا تھا
- صرف کہہ دوں کہ ناؤ ڈوب گئی
- اللہ اللہ یہ لرزش مژگاں
- میری آنکھوں میں نیند چبھتی ہے
- اس کو کرنوں نے دی ہے تابانی
Some or all works by this author are now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |