کراہتے ہوئے دل

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کراہتے ہوئے دل
by مصطفٰی زیدی

میں اسپتال کے بستر پہ تم سے اتنی دور
یہ سوچتا ہوں کہ ایسی عجیب دنیا میں
نہ جانے آج کے دن کیا نہیں ہوا ہوگا
کسی نے بڑھ کے ستارے قفس کیے ہوں گے
کسی کے ہات میں مہتاب آ گیا ہوگا
جلائی ہوں گی کسی کے نفس نے قندیلیں
کسی کی بزم میں خورشید ناچتا ہوگا
کسی کو ذہن کا چھوٹا سا تازیانہ بہت
کسی کو دل کی کشاکش کا حوصلہ ہوگا
نہ جانے کتنے ارادے ابھر رہے ہوں گے
نہ جانے کتنے خیالوں کا دل بڑھا ہوگا
تمہاری پھول سی فطرت کی سطح نرم سے دور
پہاڑ ہوں گے سمندر کا راستہ ہوگا

یہ ایک فرض کا ماحول فرض کا سنگیت
یہ اسپتال کے آنسو یہ اسپتال کی ریت
مرے قریب بہت سے مریض اور بھی ہیں
پکارتی ہوئی آنکھیں کراہتے ہوئے دل
بہت عزیز ہے ان سب کو زندگی اپنی
یہ اپنی زیست کا احساس کیسی نعمت ہے

مگر مجھے یہی الجھن کہ زندگی کی یہ بھیک
جو مل گئی بھی تو کتنی ذرا سی بات ملی
کسی کے ہات میں مہتاب آ گیا بھی تو کیا
کسی کے قدموں میں سورج کا سر جھکا بھی تو کیا
ہوا ہی کیا جو یہ چھوٹی سی کائنات ملی؟
مرے وجود کی گہری خموش ویرانی
تمہیں یہاں کے اندھیرے کا علم کیا ہوگا
تمہیں تو صرف مقدر سے چاند رات ملی

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse