کہانی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کہانی
by مصطفٰی زیدی

بچو، ہم پر ہنسنے والو، آؤ، تمہیں سمجھائیں
جس کے لیے اس حال کو پہنچے، اس کا نام بتائیں

روپ نگر کی اک رانی تھی، اس سے ہوا لگاؤ
بچو، اس رانی کی کہانی سن لو اور سو جاؤ

اس پر مرنا، آہیں بھرنا، رونا، کڑھنا، جلنا
آب و ہوا پر زندہ رہنا، انگاروں پر چلنا

ہم جنگل جنگل پھرتے تھے اس کے لیے دیوانے
رشی بنے، مجنوں کہلائے، لیکن ہار نہ مانے

برسوں کیا کیا چنے چبائے، کیا کیا پاپڑ بیلے
لہروں کو ہم راز بنایا، طوفانوں سے کھیلے

دفتر بھولے، بستر بھولے، پینے لگے سراب
پل بھر آنکھ لگے، تو آئیں الٹے سیدھے خواب

نیند میں کیا کیا دیکھیں، تڑپیں، روئیں، اٹھ اٹھ جائیں
سو جانے کی گولی کھائیں، انجکشن لگوائیں

آخر وہ اک خواب میں آئی سن کے ہمارا حال
کوئل جیسی بات تھی اس کی، ہرنی جیسی چال

کہنے لگی، کوئی جی، تیرا حال نہ دیکھا جائے
میں نے کہا کہ رانی اپنی پرجا کو بہلائے

کہنے لگی کہ تو کیا لے گا: سونا، چاندی، ہار
میں نے کہا کہ رانی، تیرے مکھڑے کی تلوار

پھر دل کے آنگن میں اترا اس کا سارا روپ
اس چہرے کی شیتل کرنیں، اس مکھڑے کی دھوپ

دھوپ پڑی، تو کھل گئی آنکھیں، کھل گیا سارا بھید
غش کھایا، تو دوڑے آئے منشی، پنڈت، وید

وہ دن ہے اور آج کا دن ہے چھٹ گیا کھانا پانی
چھٹ گیا کھانا پانی، بچو، ہو گئی ختم کہانی

میری کہانی میں لیکن اک بھید ہے، اس کو پاؤ
چاند کو دور ہی دور سے دیکھو چاند کے پاس نہ جاؤ

نہ اپنے گھر ہی اس کو بلاؤ

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse