بجھ گئی شمع حرم باب کلیسا نہ کھلا
Appearance
بجھ گئی شمع حرم باب کلیسا نہ کھلا
کھل گئے زخم کے لب تیرا دریچہ نہ کھلا
در توبہ سے بگولوں کی طرح گزرے لوگ
ابر کی طرح امڈ آئے جو مے خانہ کھلا
شہر در شہر پھری مری گناہوں کی بیاض
بعض نظروں پہ مرا سوز حکیمانہ کھلا
نازنینوں میں رسائی کا یہ عالم تھا کبھی
لاکھ پہروں میں بھی دروازے پہ دروازہ کھلا
ہم پری زادوں میں کھیلے شب افسوں میں پلے
ہم سے بھی تیرے طلسمات کا عقدہ نہ کھلا
ایک اک شکل کو دیکھا ہے بڑی حسرت سے
اجنبی کون ہے اور کون شناسا نہ کھلا
ریت پر پھینک گئی عقل کی گستاخ لبی
پھر کبھی کشف و کرامات کا دریا نہ کھلا
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |