قدم قدم پہ تمنائے التفات تو دیکھ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
قدم قدم پہ تمنائے التفات تو دیکھ
by مصطفٰی زیدی

قدم قدم پہ تمنائے التفات تو دیکھ
زوال عشق میں سوداگروں کا ہات تو دیکھ

بس ایک ہم تھے جو تھوڑا سا سر اٹھا کے چلے
اسی روش پہ رقیبوں کے واقعات تو دیکھ

غم حیات میں حاضر ہوں لیکن ایک ذرا
نگار شہر سے میرے تعلقات تو دیکھ

خود اپنی آنچ میں جلتا ہے چاندنی کا بدن
کسی کے نرم خنک گیسوؤں کی رات تو دیکھ

عطا کیا دل مضطر تو سی دیئے میرے ہونٹ
خدائے کون و مکاں کے توہمات تو دیکھ

گناہ میں بھی بڑے معرفت کے موقعے ہیں
کبھی کبھی اسے بے خدشۂ نجات تو دیکھ

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse