آندھی چلی تو نقش کف پا نہیں ملا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آندھی چلی تو نقش کف پا نہیں ملا
by مصطفٰی زیدی

آندھی چلی تو نقش کف پا نہیں ملا
دل جس سے مل گیا وہ دوبارا نہیں ملا

ہم انجمن میں سب کی طرف دیکھتے رہے
اپنی طرح سے کوئی اکیلا نہیں ملا

آواز کو تو کون سمجھتا کہ دور دور
خاموشیوں کا درد شناسا نہیں ملا

قدموں کو شوق آبلہ پائی تو مل گیا
لیکن بہ ظرف وسعت صحرا نہیں ملا

کنعاں میں بھی نصیب ہوئی خود دریدگی
چاک قبا کو دست زلیخا نہیں ملا

مہر و وفا کے دشت نوردو جواب دو
تم کو بھی وہ غزال ملا یا نہیں ملا

کچے گھڑے نے جیت لی ندی چڑھی ہوئی
مضبوط کشتیوں کو کنارا نہیں ملا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse