فساد ذات
Appearance
دریدہ پیرہنی کل بھی تھی اور آج بھی ہے
مگر وہ اور سبب تھا یہ اور قصہ ہے
یہ رات اور ہے وہ رات اور تھی جس میں
ہر ایک اشک میں سارنگیاں سی بجتی تھیں
عجیب لذت نظارہ تھی حجاب کے ساتھ
ہر ایک زخم مہکتا تھا ماہتاب کے ساتھ
یہی حیات گریزاں بڑی سہانی تھی
نہ تم سے رنج نہ اپنے سے بد گمانی تھی
شکایت آج بھی تم سے نہیں کہ محرومی
تمہارے در سے نہ ملتی تو گھر سے مل جاتی
تمہارا عہد اگر استوار ہی ہوتا
تو پھر بھی دامن دل تار تار ہی ہوتا
خود اپنی ذات ہی ناخن خود اپنی ذات ہی زخم
خود اپنا دل رگ جاں اور خود اپنا دل نشتر
فساد خلق بھی خود اور فساد ذات بھی خود
سفر کا وقت بھی خود جنگلوں کی رات بھی خود
تمہاری سنگ دلی سے خفا نہیں ہوتے
کہ ہم سے اپنے ہی وعدے وفا نہیں ہوتے
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |