ایک شام (مصطفٰی زیدی)

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ایک شام
by مصطفٰی زیدی

یوں تو لمحوں کے اس تسلسل میں
اب سے پہلے بھی عمر کٹتی تھی
موم بتی کی روشنی میں نظر
حافظے کے ورق الٹتی تھی
ریت کے سوگوار ٹیلوں پر
چاندنی رات بھر بھٹکتی تھی

آج لیکن تھکے ہوئے دل پر
جسم کا تار تار بھاری ہے
شام کی دم بخود ہواؤں پر
صبح کا انتظار بھاری ہے

مقبروں سے اٹھی ہوئی آندھی
ٹہنیوں سے الجھ کے چلتی ہے
خشک پلکوں پہ آنسوؤں کی امید
پے بہ پے کروٹیں بدلتی ہے
ایک اک عکس سانس لیتا ہے
ایک اک یاد آنکھ ملتی ہے
جیسے صحرا میں سر جھکائے ہوئے
حاجیوں کی قطار چلتی ہے

زرد چنگاریوں کے دامن میں
یوں سلگتا ہے سرد آتش دان
جیسے بچوں کی بھوک کے آگے
ایک نادار باپ کا ایمان

دم بخود خامشی میں دھیرے سے
زرد پتے قدم اٹھاتے ہیں
یاد کے کارواں اندھیرے میں
خواب کی طرح سرسراتے ہیں
کھڑکیوں کے ڈرے ہوئے چہرے
اپنی آہٹ سے کانپ جاتے ہیں

دل کی قربان گاہ کے آگے
ایک ٹوٹا ہوا دیا بھی نہیں
کسی پیپل کے نرم سائے میں
کوئی پتھر کا دیوتا بھی نہیں
روح کے کاسۂ گدائی کو
چار ٹکڑوں کا آسرا بھی نہیں

لمبی چوڑی سڑک کے دامن پر
قمقمے سہمے سہمے جلتے ہیں
جیسے اکثر بڑے گھرانوں میں
فاقہ کش رشتہ دار پلتے ہیں

سوچتا ہوں کہ اس دیار سے دور
ایک ایسا بھی دیس ہے جس کی
رات تاروں میں سج کے آئے گی
صبح ہوگی تو گھر کے گوشوں میں
تیری معصوم مسکراہٹ کی
نرم سی دھوپ پھیل جائے گی

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse