وہ عہد عہد ہی کیا ہے جسے نبھاؤ بھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وہ عہد عہد ہی کیا ہے جسے نبھاؤ بھی
by مصطفٰی زیدی

وہ عہد عہد ہی کیا ہے جسے نبھاؤ بھی
ہمارے وعدۂ الفت کو بھول جاؤ بھی

بھلا کہاں کے ہم ایسے گمان والے ہیں
ہزار بار ہم آئیں ہمیں بلاؤ بھی

بگڑ چلا ہے بہت رسم خودکشی کا چلن
ڈرانے والو کسی روز کر دکھاؤ بھی

نہیں کہ عرض تمنا پہ مان ہی جاؤ
ہمیں اس عہد تمنا میں آزماؤ بھی

فغاں کہ قصۂ دل سن کے لوگ کہتے ہیں
یہ کون سی نئی افتاد ہے ہٹاؤ بھی

تمہاری نیند میں ڈوبی ہوئی نظر کی قسم
ہمیں یہ ضد ہے کہ جاگو بھی اور جگاؤ بھی

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse