اب جی حدود سود و زیاں سے گزر گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اب جی حدود سود و زیاں سے گزر گیا
by مصطفٰی زیدی

اب جی حدود سود و زیاں سے گزر گیا
اچھا وہی رہا جو جوانی میں مر گیا

پلکوں پہ آ کے رک سی گئی تھی ہر ایک موج
کل رو لیے تو آنکھ سے دریا اتر گیا

تجھ سے تو دل کے پاس ملاقات ہو گئی
میں خود کو ڈھونڈنے کے لیے در بہ در گیا

شام وطن کچھ اپنے شہیدوں کا ذکر کر
جن کے لہو سے صبح کا چہرہ نکھر گیا

آخر بہار کو تو جو کرنا تھا کر گئی
الزام احتیاط گریباں کے سر گیا

زنجیر ماتمی ہے تم اے عاقلان شہر
اب کس کو پوچھتے ہو دوانہ تو مر گیا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse