کیا کیا نظر کو شوق ہوس دیکھنے میں تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا کیا نظر کو شوق ہوس دیکھنے میں تھا
by مصطفٰی زیدی

کیا کیا نظر کو شوق ہوس دیکھنے میں تھا
دیکھا تو ہر جمال اسی آئینے میں تھا

قلزم نے بڑھ کے چوم لیے پھول سے قدم
دریائے رنگ و نور ابھی راستے میں تھا

اک موج خون خلق تھی کس کی جبیں پہ تھی
اک طوق فرد جرم تھا کس کے گلے میں تھا

اک رشتۂ وفا تھا سو کس نا شناس سے
اک درد حرز جاں تھا سو کس کے صلے میں تھا

صہبائے تند و تیز کی حدت کو کیا خبر
شیشے سے پوچھئے جو مزا ٹوٹنے میں تھا

کیا کیا رہے ہیں حرف و حکایت کے سلسلے
وہ کم سخن نہیں تھا مگر دیکھنے میں تھا

تائب تھے احتساب سے جب سارے بادہ کش
مجھ کو یہ افتخار کہ میں مے کدے میں تھا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse