غم دوراں نے بھی سیکھے غم جاناں کے چلن

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غم دوراں نے بھی سیکھے غم جاناں کے چلن
by مصطفٰی زیدی

غم دوراں نے بھی سیکھے غم جاناں کے چلن
وہی سوچی ہوئی چالیں وہی بے ساختہ پن

وہی اقرار میں انکار کے لاکھوں پہلو
وہی ہونٹوں پہ تبسم وہی ابرو پہ شکن

کس کو دیکھا ہے کہ پندار نظر کے با وصف
ایک لمحے کے لیے رک گئی دل کی دھڑکن

کون سی فصل میں اس بار ملے ہیں تجھ سے
کہ نہ پروائے گریباں ہے نہ فکر دامن

اب تو چبھتی ہے ہوا برف کے میدانوں کی
ان دنوں جسم کے احساس سے جلتا تھا بدن

ایسی سونی تو کبھی شام غریباں بھی نہ تھی
دل بجھے جاتے ہیں اے تیرگیٔ صبح وطن

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse