دوراہا (مصطفٰی زیدی)

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دوراہا
by مصطفٰی زیدی

جاگ اے نرم نگاہی کے پر اسرار سکوت
آج بیمار پہ یہ رات بہت بھاری ہے
جو خود اپنے ہی سلاسل میں گرفتار رہے
ان خداؤں سے مرے غم کی دوا کیا ہوگی
سوچتے سوچتے تھک جائیں گے نیلے ساگر
جاگتے جاگتے سو جائے گا مدھم آکاش
اس چھلکتی ہوئی شبنم کا ذرا سا قطرہ
کسی معصوم سے رخسار پہ جم جائے گا
ایک تارا نظر آئے گا کسی چلمن میں
ایک آنسو کسی بستر پہ بکھر جائے گا
ہاں مگر تیرا یہ بیمار کدھر جائے گا
میں نے اک نظم میں لکھا تھا کہ اے روح وفا
چارہ سازی ترے ناخن کی رہین منت
غم گساری تری پلکوں کی روایات میں ہے
ایک چھوٹی ہی سی امید طرب زار سہی
ایک جگنو کا اجالا مری برسات میں ہے
لذت عارض و لب ساعت تکمیل وصال
میری تقدیر میں ہے اور تری بات میں ہے

دیر سے، کعبے سے، ادراک سے بھی اکتا کر
آج تک دل کو اجالے کی طلب ہوتی ہے
ایک دن آئے گا جب اور بھی عریاں ہو کر
آدمی جینے کو تھوڑی سی ضیا مانگے گا
گیت کے، پھول کے، اشعار کے، افسانوں کے
آج تک ہم نے بنائے ہیں کھلونے کتنے
یہ کھلونے بھی نہ ہوتے تو ہمارا بچپن
سوچتا ہوں کہ گزرتا تو گزرتا کیسے
آدمی زیست کے سیلاب سے لڑتے لڑتے
بیچ منجدھار میں آتا تو ابھرتا کیسے

دیر سے روح پہ اک خواب گراں طاری ہے
آج بیمار پہ یہ رات بہت بھاری ہے
آج پھر دوش تمنا پہ ہے دل کا تابوت
جاگ اے نرم نگاہی کے مسیحانہ سکوت
ورنہ انسان کی فطرت کا تلون مت پوچھ
اس سن و سال کا مغرور لڑکپن مت پوچھ
آدمی تیری اس افتاد سے بد دل ہو کر
اور دو چار خداؤں کے علم پوجے گا
اور اک روز اس انداز سے بھی اکتا کر
اپنے بے نام خیالوں کے صنم پوجے گا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse