سفر آخر شب
Appearance
بہت قریب سے آئی ہوائے دامن گل
کسی کے روئے بہاریں نے حال دل پوچھا
کہ اے فراق کی راتیں گزارنے والو
خمار آخر شب کا مزاج کیسا تھا
تمہارے ساتھ رہے کون کون سے تارے
سیاہ رات میں کس کس نے تم کو چھوڑ دیا
بچھڑ گئے کہ دغا دے گئے شریک سفر
الجھ گیا کہ وفا کا طلسم ٹوٹ گیا
نصیب ہو گیا کس کس کو قرب سلطانی
مزاج کس کا یہاں تک قلندرانہ رہا
فگار ہو گئے کانٹوں سے پیرہن کتنے
زمیں کو رشک چمن کر گیا لہو کس کا
سنائیں یا نہ سنائیں حکایت شب غم
کہ حرف حرف صحیفہ ہے، اشک اشک قلم
کن آنسوؤں سے بتائیں کہ حال کیسا ہے
بس اس قدر ہے کہ جیسے ہیں سرفراز ہیں ہم
ستیزہ کار رہے ہیں جہاں بھی الجھے ہیں
شعار راہ زناں سے مسافروں کے قدم
ہزار دشت پڑے، لاکھ آفتاب ابھرے
جبیں پہ گرد، پلک پر نمی نہیں آئی
کہاں کہاں نہ لٹا کارواں فقیروں کا
متاع درد میں کوئی کمی نہیں آئی
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |