مسافر (مصطفٰی زیدی)

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مسافر
by مصطفٰی زیدی

مرے وطن تری خدمت میں لے کر آیا ہوں
جگہ جگہ کے طلسمات دیس دیس کے رنگ
پرانے ذہن کی راکھ اور نئے دلوں کی امنگ
نہ دیکھ ایسی نگاہوں سے میرے خالی ہاتھ
نہ یوں ہو میری تہی دامنی سے شرمندہ
بسے ہوئے ہیں مرے دل میں سیکڑوں تحفے
بہت سے غم کئی خوشیاں کئی انوکھے لوگ
کہیں سے کیف ہی کیف اور کہیں سے درد ہی درد
جنہیں اٹھا نہیں سکتا ہر ایک دشت نورد
جو تھیلیوں کے شکم میں سما نہیں سکتے
جو سوٹ کیس کی جیبوں میں آ نہیں سکتے

بچھڑ کے تجھ سے کئی اجنبی دیاروں نے
مجھے گلے سے لگایا مجھے تسلی دی
مجھے بتائے شب تیرہ و سیاہ کے راز
مرے بدن کو سکھائے ہزار استلذاذ
کچھ اس طرح مرے پہلو میں آئے زہرہ و شمس
میں مدتوں یہی سمجھا کیا کہ جسم کا لمس
ازل سے تا بہ ابد ایک ہی مسرت ہے
کہ سب فریب ہے میرا بدن حقیقت ہے
اور اس طرح بھی ہوا ہے کہ میری تنہائی
سمندروں سے لپٹ کر ہوا سے ٹکرا کر
کبھی سمیٹ کے مجھ کو نئے جزیروں میں
کبھی پہاڑ کے جھرنے کی طرح بکھرا کر
کبھی بٹھا کے مجھے آسماں کے دوش بدوش
کبھی زمیں کی تہوں میں جڑوں میں پھیلا کر
کچھ اس طرح مرے احساس میں سمائی ہے
کہ مجھ کو ذات سے باہر نکال لائی ہے
کچھ ایسا خواب سا نا خوابیاں سی طاری تھیں
بدن تو کیا مجھے پرچھائیاں بھی بھاری تھیں

مرے دیار کہاں تھے ترے تماشائی
کہ دیدنی تھا مرا جشن آبلہ پائی
کچھ ایسے دوست ملے شہر غیر میں کہ مجھے
کئی فرشتہ نفس دشمنوں کی یاد آئی
میں سوچتا ہوں کہ کم ہوں گے ایسے دیوانے
نہ کوئی قدر ہو جن کی نہ کوئی رسوائی
مجھے بجھا نہ سکی یخ زدہ ہوائے شمال
مجھے ڈبو نہ سکی قلزموں کی گہرائی
نہ جانے کیسا کرہ تھا مرا وجود کہ روز
مرے قریب زمیں گھومتی ہوئی آئی

تلاش کرتے ہوئے گم شدہ خزانوں کو
بہت سے مصر کے فرعون مقبروں میں ملے
زبان سنگ میں جو ہم کلام ہوتے ہیں
کچھ ایسے لوگ پرانے مجسموں میں ملے
بلند بام کلیسا میں تھے وہی فن کار
جو خستہ حال مساجد کے گنبدوں میں ملے
مری تھکی ہوئی خوابیدگی سے نالاں تھے
وہ رت جگے جو مسائل کی کروٹوں میں ملے
کئی سراغ نظر آئے داستانوں میں
کئی چراغ کتابوں کے حاشیوں میں ملے

سنا کے اپنے عروج و زوال کے قصے
سبھی نے مجھ سے مرا رنگ داستاں پوچھا
دکھا کے برف کے موسم مرے بزرگوں نے
مزاج شعلگئ عصر نوجواں پوچھا

مری جھکی ہوئی آنکھیں تلاش کرتی رہیں
کوئی ضمیر کا لہجہ کوئی اصول کی بات
گزر گئی مری پلکوں پہ جاگتی ہوئی رات
ندامتوں کا پسینہ جبیں پہ پھوٹ گیا
مری زباں پہ ترا نام آ کے ٹوٹ گیا
قبول کر یہ ندامت کہ اس پسینے کی
ہر ایک بوند میں چنگاریوں کے سانچے ہیں
قبول کر مرے چہرے کی جھریاں جن میں
کہیں جنوں کہیں تہذیب کے طمانچے ہیں
سنبھال میرا سبک ہدیۂ غم ادراک
جو مجھ کو سات سمندر کا زہر پی کے ملا
ثقافتوں کے ہر آتش فشاں میں جی کے ملا
طلب کیا مجھے یونان کے خداؤں نے
جنم لیا مرے سینے میں دیوتاؤں نے
فریب و حرص کے ہر راستے سے موڑ دیا
اور اس کے بعد سپر مارکٹ پہ چھوڑ دیا
جہاں بس ایک ہی معیار آدمیت تھا
ہجوم مرد و زناں محو سیر و وحشت تھا
گھڑی کا حسن نئے ریڈیو کی زیبائی
پلاسٹک کے کنول نائلان کی ٹائی
اطالیہ کے نئے بوٹ ہانگ کانگ کے ہار
کرائسلر کی نئی رینج، ٹوکیو کے سنگار
ہر ایک جسم کو آسودگی کی خواہش تھی
ہر ایک آنکھ میں اسباب کی پرستش تھی
یہ انہماک قیادت میں بھی نہیں ملتا
یہ سوئے نفس عبادت میں بھی نہیں ملتا

مرے وطن مرے سامان میں تو کچھ بھی نہیں
بس ایک خواب ہے اور خواب کی فصیلیں ہیں
قبول کر مری میلی قمیض کا تحفہ
کہ اس کی خاک میں سجدوں کی سر زمینیں ہیں
نہ دھل سکے گا یہ دامن کہ اس کے سینے پر
بیافراؔ کے مقدس لہو کے چھینٹیں ہیں
یہ ویتنام کی مٹی ہے جس کے ذروں میں
پیمبروں کی دمکتی ہوئی جبینیں ہیں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse