کوئی رفیق بہم ہی نہ ہو تو کیا کیجے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کوئی رفیق بہم ہی نہ ہو تو کیا کیجے
by مصطفٰی زیدی

کوئی رفیق بہم ہی نہ ہو تو کیا کیجے
کبھی کبھی ترا غم ہی نہ ہو تو کیا کیجے

ہماری راہ جدا ہے کہ ایسی راہوں پر
رواج نقش قدم ہی نہ ہو تو کیا کیجے

ہمیں بھی بادہ گساری سے عار تھی لیکن
شراب ظرف سے کم ہی نہ ہو تو کیا کیجے

تباہ ہونے کا ارماں سہی محبت میں
کسی کو خوئے ستم ہی نہ ہو تو کیا کیجے

ہمارے شعر میں روٹی کا ذکر بھی ہوگا
کسی کسی کے شکم ہی نہ ہو تو کیا کیجے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse