آسماں زرد تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آسماں زرد تھا
by مصطفٰی زیدی

اے کلی تجھ کو ہمارا بھی خیال آ ہی گیا
ہم تو مایوس ہوئے بیٹھے تھے صحراؤں میں
اب ترا روپ بھی دھندلا سا چلا تھا دل میں
تو بھی اک یاد سی تھی جملہ حسیناؤں میں
تہہ بہ تہہ گرد سے آلود تھا دن کا دامن
رات کا نام نہ آتا تھا تمناؤں میں

رقص شبنم کی پرستار نگاہوں کے لیے
دھوپ کے ابر تھے خورشید کی بوچھاریں تھیں
آسماں زرد تھا جیسے کوئی یرقاں کا مریض
جس کے تکیے کے لیے ریت کی دستاریں تھیں
دل بھرا رہتا تھا جلتے ہوئے چھالے کی طرح
روح کے واسطے دیواریں ہی دیواریں تھیں

کوئی آواز نہ آتی تھی بہ جز صوت مہیب
کوئی نغمہ نہ تھا چیلوں کے ترنم کے سوا
سارا انداز تھا پھیلے ہوئے دریاؤں کا
ریگ صحرا کے سمندر میں تلاطم کے سوا
خشک پتوں کا نمک ریت کے ذروں کی مٹھاس
ہونٹ سب ذائقے رکھتے تھے ترنم کے سوا

کب تک اس دل کی لگن راس نہ آتی آخر
مسکراتا ہوا گردوں پہ ہلال آ ہی گیا
اپنے دیوانوں کو سینے سے لگانے کے لیے
اک غزل پیکر و افسانہ جمال آ ہی گیا
اے فلک تو نے ہمیں خاک سے آخر کو چنا
اے کلی تجھ کو ہمارا بھی خیال آ ہی گیا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse