سینے میں خزاں آنکھوں میں برسات رہی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
سینے میں خزاں آنکھوں میں برسات رہی ہے
by مصطفٰی زیدی

سینے میں خزاں آنکھوں میں برسات رہی ہے
اس عشق میں ہر فصل کی سوغات رہی ہے

کس طرح خود اپنے کو یقیں آئے کہ اس سے
ہم خاک نشینوں کی ملاقات رہی ہے

صوفی کا خدا اور تھا شاعر کا خدا اور
تم ساتھ رہے ہو تو کرامات رہی ہے

اتنا تو سمجھ روز کے بڑھتے ہوئے فتنے
ہم کچھ نہیں بولے تو تری بات رہی ہے

ہم میں تو یہ حیرانی و شوریدگئ عشق
بچپن ہی سے منجملۂ عادات رہی ہے

اس سے بھی تو کچھ ربط جھلکتا ہے کہ وہ آنکھ
بس ہم پہ عنایات میں محتاط رہی ہے

الزام کسے دیں کہ ترے پیار میں ہم پر
جو کچھ بھی رہی حسب روایات رہی ہے

کچھ میرؔ کے حالات سے حاصل کرو عبرت
لے دے کے اب اک عزت سادات رہی ہے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse