آواز کے سائے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آواز کے سائے
by مصطفٰی زیدی

خبر نہیں تم کہاں ہو یارو

ہماری افتاد روز و شب کی
تمہیں خبر مل سکی، کہ تم بھی
رہین دست خزاں ہو یارو
دنوں میں تفریق مٹ چکی ہے
کہ وقت سے خوش گماں ہو یارو
ابھی لڑکپن کے حوصلے ہیں
کہ بے سر و سائباں ہو یارو

ہماری افتاد روز و شب میں
نہ جانے کتنی ہی بار اب تک
دھنک بنی اور بکھر چکی ہے
عروس شب اپنی خلوتوں سے
سحر کو محروم کر چکی ہے

دہکتے صحرا میں دھوپ کھا کر
شفق کی رنگت اتر چکی ہے
بہار کا تعزیہ اٹھائے
نگار یک شب گزر چکی ہے

امید نو روز ہے کہ تم بھی
بہار کے نوحہ خواں ہو یارو

تمہاری یادوں کے قافلے کا
تھکا ہوا اجنبی مسافر
ہر اک کو آواز دے رہا ہے
خفا ہو یا بے زباں ہو یارو

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse