ہم لوگ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہم لوگ
by مصطفٰی زیدی

آؤ اس یاد کو سینے سے لگا کر سو جائیں
آؤ سوچیں کہ بس اک ہم ہی نہیں تیرہ نصیب
اپنے ایسے کئی آشفتہ جگر اور بھی ہیں

ایک بے نام تھکن ایک پر اسرار کسک
دل پہ وہ بوجھ کہ بھولے سے بھی پوچھے جو کوئی
آنکھ سے جلتی ہوئی روح کا لاوا بہہ جائے

چارہ سازی کے ہر انداز کا گہرا نشتر
غم گساری کی روایات میں الجھے ہوئے زخم
دردمندی کی خراشیں جو مٹائے نہ مٹیں

اپنے ایسے کئی آشفتہ جگر اور بھی ہیں
لیکن اے وقت وہ صاحب نظراں کیسے ہیں
کوئی اس دیس کا مل جائے تو اتنا پوچھیں

آج کل اپنے مسیحا نفساں کیسے ہیں
آندھیاں تو یہ سنا ہے کہ ادھر بھی آئیں
کونپلیں کیسی ہیں شیشوں کے مکاں کیسے ہیں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse