دور کی آواز

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دور کی آواز
by مصطفٰی زیدی

میرے محبوب دیس کی گلیو
تم کو اور اپنے دوستوں کو سلام
اپنے زخمی شباب کو تسلیم
اپنے بچپن کے قہقہوں کو سلام

عمر بھر کے لیے تمہارے پاس
رہ گئی ہے شگفتگی میری
آخری رات کے اداس دیو
یاد ہے تم کو بے بسی میری

یاد ہے تم کو جب بھلائے تھے
عمر بھر کے کیے ہوئے وعدے
رسم و مذہب کی اک پجارن نے
ایک چاندی کے دیوتا کے لیے

جانے اس کارگاہ ہستی میں
اس کو وہ دیوتا ملا کہ نہیں
میری کلیوں کا خون پی کر بھی
اس کا اپنا کنول کھلا کہ نہیں

آج کل اس کے اپنے دامن میں
پیار کے گیت ہیں کہ پیسے ہیں
تم کو معلوم ہو تو بتلانا
اس کے آنچل کے رنگ کیسے ہیں

مجھ کو آواز دو کہ صبح کی اوس
کیا مجھے اب بھی یاد کرتی ہے
میرے گھر کی اداس چوکھٹ پر
کیا کبھی چاندنی اترتی ہے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse