فرہاد

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فرہاد
by مصطفٰی زیدی

اس سے ملنا تو اس طرح کہنا

تجھ سے پہلے مری نگاہوں میں
کوئی روپ اس طرح نہ اترا تھا
تجھ سے آباد ہے خرابۂ دل
ورنہ میں کس قدر اکیلا تھا

تیرے ہونٹوں پہ کوہسار کی اوس
تیرے چہرے پہ دھوپ کا جادو
تیری سانسوں کی تھرتھراہٹ میں
کونپلوں کے کنوار کی خوشبو
وہ کہے گی کہ ان خطابوں سے
اور کس کس پہ جال ڈالے ہیں
تم یہ کہنا کہ پیش ساغر جم
اور سب مٹیوں کے پیالے ہیں

ایسا کرنا کہ احتیاط کے ساتھ
اس کے ہاتھوں سے ہاتھ ٹکرانا
اور اگر ہو سکے تو آنکھوں میں
صرف دو چار اشک بھر لانا

عشق میں اے مبصرین کرام
یہی تکنیک کام آتی ہے
اور یہی لے کے ڈوب جاتی ہے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse