روکتا ہے غم اظہار سے پندار مجھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
روکتا ہے غم اظہار سے پندار مجھے
by مصطفٰی زیدی

روکتا ہے غم اظہار سے پندار مجھے
میرے اشکوں سے چھپا لے مرے رخسار مجھے

دیکھ اے دشت جنوں بھید نہ کھلنے پائے
ڈھونڈنے آئے ہیں گھر کے در و دیوار مجھے

سی دیے ہونٹ اسی شخص کی مجبوری نے
جس کی قربت نے کیا محرم اسرار مجھے

میری آنکھوں کی طرف دیکھ رہے ہیں انجم
جیسے پہچان گئی روح شب تار مجھے

جنس ویرانی صحرا میری دوکان میں ہے
کیا خریدے گا ترے شہر کا بازار مجھے

جرس گل نے کئی بار پکارا لیکن
لے گئی راہ سے زنجیر کی جھنکار مجھے

ناوک ظلم اٹھا دشنۂ اندوہ سنبھال
لطف کے خنجر بے نام سے مت مار مجھے

ساری دنیا میں گھنی رات کا سناٹا تھا
صحن زنداں میں ملے صبح کے آثار مجھے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse