مری پتھر آنکھیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مری پتھر آنکھیں
by مصطفٰی زیدی

اب کے مٹی کی عبارت میں لکھی جائے گی
سبز پتوں کی کہانی رخ شاداب کی بات
کل کے دریاؤں کی مٹتی ہوئی مبہم تحریر
اب فقط ریت کے دامن میں نظر آئے گی
بوند بھر نم کو ترس جائے گی بے سود دعا
نم اگر ہوگی کوئی چیز تو میری آنکھیں
میرا اجڑا ہوا چہرہ مری پتھر آنکھیں
قحط افسانہ نہیں اور یہ بے ابر فلک
آج اس دیس کل اس دیس کا وارث ہوگا
ہم سے ترکے میں ملیں گے اسے بیمار درخت
تیز کرنوں کی تمازت سے چٹختے ہوئے ہونٹ
دھوپ کا حرف جنوں لو کا وصیت نامہ
اور مرے شہر طلسمات کی بے در آنکھیں
مری بے در مری بنجر مری پتھر آنکھیں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse