تعمیر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تعمیر
by مصطفٰی زیدی

اپنے سینے میں دبائے ہوئے لاکھوں شعلے
شبنم و برف کے نغمات سنائے میں نے
زیست کے نوحۂ پیہم سے چرا کر آنکھیں
گیت جو گا نہ سکے کوئی وہ گائے میں نے

آج تشبیہ و کنایات کا دل ٹوٹ گیا
آج میں جو بھی کہوں گا وہ حقیقت ہوگی
آنچ لہرائے گی ہر بوند سے پیمانے کی
میرے سائے کو مری شکل سے وحشت ہوگی

غم دوراں نے غم دل کا سکوں چھین لیا
اب ترے پیار میں بھی پیار کے انداز نہیں
شوق کے قلعۂ تاریک میں ہے سناٹا
کوئی آواز نہیں کوئی بھی آواز نہیں

کیسے سمجھاؤں کہ الفت ہی نہیں حاصل عمر
حاصل عمر اس الفت کا مداوا بھی تو ہے
زندگی حسرت خس خانہ و برفاب سہی
کچھ دہکتے ہوئے شعلوں کی تمنا بھی تو ہے

تو مرا خواب ہے آدرش ہے لیکن مجھ کو
تیرے اس قصر طرب ناک سے جانا ہوگا
آگ اور خون اگلتے ہوئے سیارے کو
پھر ترا قصر طرب ناک بنانا ہوگا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse