تری ہنسی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تری ہنسی
by مصطفٰی زیدی

فلک کا ایک تقاضا تھا ابن آدم سے
سلگ سلگ کے رہے اور پلک جھپک نہ سکے
ترس رہا ہو فضا کا مہیب سناٹا
سڈول پاؤں کی پائل مگر چھنک نہ سکے
کلی کے اذن تبسم کے ساتھ شرط یہ ہے
کہ دیر تک کسی آغوش میں مہک نہ سکے

میں سوچتا ہوں کہ یہ تیری بے حجاب ہنسی!
مزاج زیست سے اس درجہ مختلف کیوں ہے
یہ ایک شمع جسے صبح کا یقین نہیں
جگر کے زخم فروزاں سے منحرف کیوں ہے

بھرا ہوا ہے نگاہوں میں زندگی کے دھواں
بس ایک شعلۂ شب تاب میں شرر کیوں ہے
مرے وجود میں جس سے کئی خراشیں ہیں
وہ اک شکن ترے ماتھے پہ مختصر کیوں ہے
جمی ہوئی ہے ستاروں پہ آنسوؤں کی نمی
ترے چراغ کی لو اتنی تیز تر کیوں ہے

نئے شوالے میں جا کر کسی کے تیشے نے
بہت سے بت تو گرائے بہت سے بت نہ گرے

بس ایک خندۂ بے باک ہی سے کیا ہوگا
لہو کی زحمت اقدام بھی ضروری ہے
ذرا سی جرأت ادراک ہی سے کیا ہوگا

گریز و رجعت و تخریب ہی سہی لیکن
کوئی تڑپ، کوئی حسرت، کوئی مراد تو ہے
تری ہنسی سے تو میری شکست ہے بہتر
مری شکست میں تھوڑا سا اعتماد تو ہے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse